EN हिंदी
کون سی دشا کہاں کی دشا | شیح شیری
kaun si disha kahan ki disha

نظم

کون سی دشا کہاں کی دشا

احمد ہمیش

;

خاتمے سے پہلے اگر ختم ہونا ہے تو سمجھ لو کہ خاتمہ ہو چکا ہے
سلائی مشین پر میری عورت کی نیند میں سوئی گرنا

میرے مقسوم کا ویرانہ ہے
حواس بہت ہے قصوں پر بھاری ہیں

حواس جانتے ہیں کہا نہیں جانتے ہوئے بھی سبھی جانتے ہیں
کہ دنیا پیدا ہی نہیں ہوئی

جس میں بھیڑیے نہ ہوں صرف خرگوش رہ رہے ہوں
وہ دیکھو وہ کوئی سفید خرگوش ہی تو ہے

جو ابھی ابھی اس جھاڑی سے اچھل کے اس جھاڑی تک گیا ہے
مگر اس کی سفیدی میں ٹھیک اس کی گردن کی جگہ

بھیڑیے کے دانت لگنے سے گہرے خون کا مقدر لگا ہے
اس طرح مقدر کو خون کے دھبے میں دیکھنا

کہاں کی دنیا ہے
کیا کبھی ایسا ہوا کہ موت نے اپنی غذا میں خود کو کھایا

اس چترکار کو بلا سکو تو بلاؤ
ذرا جلد بلاؤ

کہ وہ کہیں اور نہیں ہوگا
کیمسٹری کے شعبے میں ہوگا

کہ جہاں رکھے ہوئے ہر رنگ میں اس کے اپنے کیمیائی آسیب کا بسیرا ہے
ہم کسی نہ کسی رنگ کو خود طاری ہونے کی دعوت دیتے ہیں

اور اس کے آسیب سے اپنی جلد نچواتے ہیں
شریانوں کو ادھڑواتے ہیں

ہر رنگ میں بسیرا کرنے والے آسیب نے ہماری محبت ہی تو کھایا
اس لیے تو میں سوتے اپنے بیٹے کو نہیں جگاتا

کہ وہ ہر روز موٹر سائیکل میں پٹرول کی جگہ
اپنے حصے کی بیداری اور نیند دونوں کو ایک ساتھ ڈال دیتا ہے

اس لئے میں دیر تک سوتی اپنی بیٹی کو نہیں جگاتا
کہ وہ کچن میں چائے بنانے کی ابدیت کو بھی

چائے کی پیالی میں انڈیل دیتی ہے