اے یار دل نشیں وہ ادا کون لے گیا
تیرے نگیں سے نقش وفا کون لے گیا
حل کر دیا تھا جس نے معمہ شباب کا
تجھ سے وہ فکر عقدہ کشا کون لے گیا
تھا لطف پہلے قہر میں اب صرف قہر ہے
ظلمت سے موج آب بقا کون لے گیا
کیوں دفعتاً لبوں پہ خموشی سی چھا گئی
اس ساز دل نشیں کی صدا کون لے گیا
آنکھوں سے شان بذل و سخا کس نے چھین لی
سینے سے ذوق لطف و عطا کون لے گیا
تھیں جس کی رو سے خون تمنا میں سرخیاں
رخسار سے وہ رنگ وفا کون لے گیا
راتوں کو مانگنا تھا دعا میری دید کی
وہ منتیں وہ ذوق دعا کون لے گیا
اے شاہ بندہ پرور سلطان نرم دل
دل سے ترے خیال گدا کون لے گیا
پہلی سی وہ کلام میں نرمی نہیں رہی
گفتار سے مزاج صبا کون لے گیا
اب جوشؔ کے لیے ہیں نہ آنسو نہ آہ سرد
اس گلستاں کی آب و ہوا کون لے گیا
نظم
کون لے گیا
جوشؔ ملیح آبادی