یہ جو بونے خدا بنے ہیں عجیب شے سے جو لگ رہے ہیں
ہیں در حقیقت یہ آدمی ہی بس ان کی خصلت جدا ہے تھوڑی
انا جو ان کی کچل چکی ہے ضمیر ان کا جو مر گیا ہے
یہ سچ ہے ذہنی غلام ہیں اب خباثتوں کے امام ہیں یہ
ہمیشہ جھک کر ملے دنی سے ثنا میں رطب اللسان ہو کر
گنہ کو ان کے ثواب جانا فریب کو لا جواب کہہ کر
انہی کو آقا انہی کو مالک انہی کو اپنا خدا بھی مانا
انہی کے ہاتھوں جسم و جاں کو خودی کو ایماں کو بیچ ڈالا
بنام علم و ادب جو پایا
عبداللہ ابن ابی کی دولت ابو جہل کی وہ خاصیت ہے
جو چاہیں ان کو کچھ اور کہہ لیں جو چاہیں انساں پھر بھی سمجھیں
مگر یہ سچ ہے لعین ہیں یہ
کم ظرف اور حقیر ہیں یہ
یہ داناؤں کے حق کو یکسر غبی کو مہمل کو بیچتے ہیں
یہ قوم و ملت کا نام لے کر اصول و مذہب کی بات کہہ کر
نسلیں کتنی تباہ کر کے کھیتیاں اپنی سینچتے ہیں
اور حباب دل میں بیٹھا
میں دیکھتا ہوں یہ سوچتا ہوں
ہے کون مجرم ان میں آخر
جو آقا مالک بنا ہوا تھا
یا وہ جو بونا خدا بنا ہے
یا پھر وہ دانا شکست کھا کر
ادھر ادھر جو بھٹک رہے ہیں
یا وہ غبی جو حق چرا کر
خدا کے خطے میں آ بسے ہیں
یا میں
کہ تنہا محیط دل میں
محض تماشابیں بنا ہوں
نظم
کون ہے مجرم شہر علم کی تاراجی کا
ابو بکر عباد