EN हिंदी
کون دیکھے گا | شیح شیری
kaun dekhega

نظم

کون دیکھے گا

مجید امجد

;

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوں کی تہوں میں ہے کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن
انہیں دنوں میں نمویاب کون دیکھے گا

یہ ایک سانس جھمیلوں بھری جگوں میں رچی
اس اپنی سانس میں کون اپنا انت دیکھے گا

اس اپنی مٹی میں جو کچھ امٹ ہے مٹی ہے
جو دن ان آنکھوں نے دیکھا ہے کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

دو رویہ ساحل دیوار اور پس دیوار
اک آئنوں کا سمندر ہے کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

تڑخ کے گرد کی تہ سے اگر کہیں کچھ پھول
کھلے بھی، کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا