وہ اک شخص تھا
جو اکیلا تھا اس کا کوئی بھی نہ تھا
اک اکائی تھا وہ
اور اک دن خود اپنی اکائی میں ضم ہو گیا
اس نے مرتے ہوئے اک وصیت لکھی
جس میں لکھا تھا!
اے آدمی!
اے وہ اک شخص
جو مرے مرنے کی پہلی خبر سن کے دوڑے
اور آواز دے بھائیو آؤ اس کا جنازہ اٹھاؤ
اور اس آواز پہ کوئی آواز اس تک نہ پہنچے
اور پھر مجھ سے بیکس اکیلے کو کاندھوں پہ اپنے دھرے
اور اکیلی سی اک قبر میں مجھ کو پہنچا کے محفوظ کر دے
میرا وہ دوست اتنا سا احسان مجھ پر کرے
وہ مری قبر پر ایک سادہ سا کتبہ لگائے
اور اس پر مرا نام لکھ دے
سچ کہوں اس سے میں اپنی شہرت نہیں چاہتا
کیا مرا نام اور کیوں وہ باقی رہے
میں اس واسطے چاہتا ہوں کہ جب
شہر کے لوگ یہ سن کے دوڑیں
کہ دیکھو یہ مشہور ہے، لوگ کہتے ہیں وہ شخص تو مر گیا
سوچتے ہیں یہ اسی کی شرارت نہ ہو
تاکہ ہم لوگ اب اس سے غافل رہیں
اس کے فتنے سے اپنے کو محفوظ سمجھیں
بس یہی چاہتا ہوں
کہ ایسا کوئی شخص ڈھونڈھے مجھے
تو سہولت ہو اس کو یہ تصدیق کرنے کی
یہ شخص سچ مچ نہیں ہے
وہ اب مر چکا ہے
میں تو اب دشمنوں کے بھی آرام کے حق میں ہوں
کیوں کسی کو کسی سے خلل ہو؟
کیوں کسی کو نام سے ایک دہشت ہو؟
سارے انسان دنیا میں آرام سے سوئیں اور خوش رہیں
نظم
کتبہ(۴)
خلیلؔ الرحمن اعظمی