بہ یک جنبش
مری آنکھوں کو پتھر کر دیا جس نے
وہ خنجر کاش
سینے میں مرے پیوست ہو جاتا
رواں ہے
وقت کی سفاک محرابوں کے نیچے
نہر خوں بستہ
سسکتی چیختی تنہا صداؤں کی
میں اب کس کے لیے
گھر کے کھنڈر میں خواب گھر کے دیکھتا جاؤں
زباں پر ہے کسیلا ذائقہ تانبے کے سکے کا
کہاں تک ہر کسی کے سامنے کشکول پھیلاؤں
نظم
کسیلا ذائقہ
شاہین غازی پوری