ہم لکھنے والے
وہ کہانی ہیں
جو خزاں میں لکھی جاتی ہے
اور بہار میں سنائی جاتی ہے
اور وہ گیت ہیں
جو اندھیرے میں گایا جاتا ہے
اور روشنی میں
دہرایا جاتا ہے
ہم ایک ایسی دیوار ہیں
جو کسی کے راستے میں نہیں آتی
اور ایک ایسا دروازہ
جو ہمیشہ دریا کی طرف کھلتا ہے
اور ایک ایسی کھڑکی
جو کبھی بازار کی طرف نہیں کھلتی
ہم ایک ایسا درخت ہیں
جسے آپ کاٹ تو سکتے ہیں
مگر لگا نہیں سکتے
ہم اس درخت کے
کاٹے جانے کا افسوس
ہم اس درخت میں
پھوٹنے والی کونپلوں
کی خوشی
ہم اس درخت کا سایہ
اور ہم اس کی لکڑی سے بنی ہوئی
ایک ایسی کشتی ہیں
جس میں بھیڑیے
سفر نہیں کر سکتے

نظم
کشتی
ذیشان ساحل