یہاں خواب سکوں پرور میں بھی بیداریاں دیکھیں
یہاں ہر ہوشیاری میں نئی سرشاریاں دیکھیں
یہاں کی گھاٹیوں میں حسن کے چشمے ابلتے ہیں
یہاں ہر چیز پر جذبات انسانی مچلتے ہیں
پریشاں منظری میں بھی یہاں فطرت سنورتی ہے
خموشی میں بھی اک موج ترنم رقص کرتی ہے
وہ شالیمار کی رنگینیوں میں حسن کا جادو
وہ دنیائے شباب و شعر وہ گلزار رنگ و بو
نشاط روح افزا کی فضاؤں میں وہ رنگینی
وہ فواروں کی نغمہ سازیوں میں کیف خود بینی
وہ جوبن چشمۂ شاہی کی دوشیزہ بہاروں کا
کہ گل پھولے ہیں یا جھرمٹ اتر آیا ستاروں کا
وہ اونچے پربت اور ان پر وہ بل کھاتی ہوئی راہیں
وہ ہر وادئ تمنا خیز پھیلائی ہوئی باہیں
صنوبر کی گھنی شاخوں کا وہ کیف آفریں سایہ
کہ جس میں اضطراب زندگی نے بھی سکوں پایا
جدھر دیکھا ادھر اک چشمۂ برفاب ہی دیکھا
نگاہوں نے مری اک منظر سیماب ہی دیکھا
سر غرب وہ اپنی سیر پانی پر شکاروں میں
خزاں کا وہم بھی اک پاپ ہے ایسی بہاروں میں
یہاں پانی کے دھارے پر چراغ زیست جلتے ہیں
یہاں موجوں کی گودی میں کئی ملاح پلتے ہیں
کناروں کے وہ برقی قمقموں کا عکس پانی میں
کہ جیسے بجلیاں تڑپیں تخیل کی روانی میں
جلو خانے ہیں فطرت کے کہ یہ رنگیں فضائیں ہیں
یہ موجیں کوثر و تسنیم کی ہیں یا ہوائیں ہیں
نگاہیں جس طرف اٹھتی ہیں شعرستان ہے منظر
لطافت سے بھرا موسیقیوں کی جان ہے منظر
میں حیراں ہوں کہ اس خطے کو کیوں کر سر زمیں کہئے
صداقت کا تقاضا ہے کہ فردوس بریں کہئے
نظم
کشمیر
میکش اکبرآبادی