زندگی آج بھی اک مسئلہ ہے
نہ تخیل
نہ حقیقت
نہ فریب رنگیں
گیت قربان کیے
شعلۂ دل نذر
نغمۂ خواب دیئے
پھر بھی یہ مسئلہ
گیت موسم کا
حسیں جسم کا
خوابوں کا جسے
میں نے اور میرے ہم عصروں نے گایا تھا اسے
زندگی سنتی نہیں
سن کے بھی ہنس دیتی ہے
آگ
جذبات کی آگ
دل نشیں
شبنمیں
معصوم خیالات کی آگ
اپنے قصبے کی کسی درد بھری رات کی آگ
زندگی آج بھی ہر آگ پہ ہنس دیتی ہے
کون جانے کہ مری طرح ہو مرغوب اسے
درد دل نشۂ مے
زندگی آج بھی اک مسئلہ ہے
اور اسے حل ہونا ہے
میں اگر نزع میں ہوں
حل تو اسے ہونا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ لے جائے جہاں رات چلو
اور سائنس یہ کہتی ہے، مرے ساتھ چلو
نظم
کشمکش
سلام ؔمچھلی شہری