EN हिंदी
کشمکش | شیح شیری
kashmakash

نظم

کشمکش

نریش کمار شاد

;

سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ مرے رنج و مصائب کا مداوا تو نہ تھی

رنگ افشاں تھی مرے دل کی خلاؤں میں مگر
ایک عورت تھی علاج غم دنیا تو نہ تھی

میرے ادراک کے ناسور تو رستے رہتے
میری ہو کر بھی وہ میرے لئے کیا کر لیتی

حسرت و یاس کے گمبھیر اندھیرے میں بھلا
ایک نازک سی کرن ساتھ کہاں تک دیتی

اس کو رہنا تھا زر و سیم کے ایوانوں میں
رہ بھی جاتی وہ مرے ساتھ تو رہتی کب تک

ایک مغرور سہوکار کی پیاری بیٹی
بھوک اور پیاس کی تکلیف کو سہتی کب تک

ایک شاعر کی تمناؤں کو دھوکا دے کر
اس نے توڑی ہے اگر پیار بھرے گیت کی لے

اس پہ افسوس ہے کیوں اس پہ تعجب کیسا
یہ محبت بھی تو احساس کا اک دھوکا ہے

پھر بھی انجانے میں جب شہر کی راہوں میں کہیں
دیکھ لیتا ہوں میں دوشیزہ جمالوں کے ہجوم

روح پر پھیلنے لگتا ہے اداسی کا غبار
ذہن میں رینگنے لگتے ہیں خیالوں کے ہجوم

سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ مرے رنج و مصائب کا مداوا تو نہ تھی

رنگ افشاں تھی مرے دل کی خلاؤں میں مگر
ایک عورت تھی علاج غم دنیا تو نہ تھی