EN हिंदी
کشمکش | شیح شیری
kashmakash

نظم

کشمکش

ؔآدتیہ پنت ناقد

;

ایک اندھیارے کونے میں
کچھ ڈرا ڈرا کچھ سہما سا

بیٹھا تھا ایک اجنبی
من میں ایک خوف لیے

کہیں چاندی کی چمک
اسے اندھا نہ کر دے

یا پیسے کی کھنک
پاگل نہ کر دے

ماضی کی سوچ سے
آنکھوں کی کھڑکی پر

ایک پرت سی چڑھ گئی نمی کی
پھر جو دیکھا مستقبل کی اور

نظر آیا کچھ بھی نہیں
ایک دھند کے سوا

اپنی جڑیں کاٹ کر
چل تو پڑا شہر کی اور

مگر اس بے مروت جہاں کے
دستور سے ناواقف تھا وہ اجنبی

جو روتا ہے یہاں اسے اور رلاتے ہیں لوگ
اتری سنہری دھوپ

من کے اندھیرے کونے میں
پھر دیکھا جو آنکھ مل یہ جانا

کہ تقدیر نے لا پھینکا ہے
ایک ایسے دوراہے پر

جہاں چن پانا اپنی راہ
کوئی آساں سی بات نہیں

ایک اور زمیں پر
بچھی ہے کلیاں

سرخ گلاب کی
گزرتی ہے یہ راہ

کئی دل کش نظروں کو چوم
مگر جاتی ہے کدھر

ایک اندھی گلی کی اور
دوسرا راستہ دھول میں سنا

جہاں کریں گے استقبال
چند کیلیں کچھ خار

راہ کچھ دشوار ہے ضرور
مگر یہاں کی فضا

پر کیف اور پر سکون
چل پڑا وہ اجنبی

کانٹوں والی راہ پر
پاؤں سے رستے سرخ خون کے قطرے

بکھرے زمین پر ایسے
جیسے بچھی ہو ہزاروں

سرخ پنکھڑیاں گلاب کی