ترے دل میں غلطاں ہو گر وہ انوکھی کسک
کہ جس کے سبب تجھ کو ہر شے پکارے، کہے:
مجھے دیکھ میری طرف آ مجھے پیار کر
تو لپکے تو ہر چیز تجھ سے کھنچے دور دور
ترے دل میں ہو موج در موج اک سیل درد
مگر تو نہ سمجھے کشش کیا ہے دوری ہے کیوں
فقط وہ انوکھی خلش دل میں غلطاں رہے
ہواؤں کے ہاتھوں میں بیتاب موجوں کے دف
ہوا تیشہ زن سبز سیال بلور پر
ہوا سے دھڑکتے سمندر کے ساحل پہ کف
یہ آمیزش حسن و خوف آرزو و فرار
ترے دل میں غلطاں رہے وہ انوکھی کسک
تفاوت کبھی نت بدلتی امنگوں میں دیکھ
تفاوت کبھی لہکے سبزے کے رنگوں میں دیکھ
کہیں تازہ کونپل میں سبزے کی ہلکی جھلک
کہیں ٹہنی ٹہنی بدلتا ہے پتوں کا عکس
کبھی دھوپ میں نکھرا نکھرا ہے رنگوں کا روپ
کبھی چھاؤں میں شام کے سائے میں ابر میں
سبھی رنگ کچھ اور بھی گہرے ہوتے ہوئے
تفاوت سے جن کی تری آنکھ حیراں رہے
یہ حیرت کشش ہے کشش میں انوکھی کسک
تری فہم کی دسترس سے مگر دور دور
یہ میٹھی رسیلی انوکھی کسک زیست ہے
نظم
کسک
ضیا جالندھری