EN हिंदी
کارتک | شیح شیری
kartik

نظم

کارتک

صلاح الدین پرویز

;

پانی میں عکس دیکھا
جنگل میں رقص دیکھا

سورج لباس پہنے
چندا سے زیادہ ٹھنڈا

اس رات آئینے میں
اک ایسا شخص دیکھا

چاندنی کے رتھ پر سج کے
اس شخص کی سواری

اب ہو رہی ہے دیکھو
سوئے افق روانہ

اب لائے گی وہاں سے
کچھ درد کا خزانہ

ان منظروں سے ہٹ کے
جھرنے کے شور و شر میں

ہم نے نہاتے دیکھی
اک حور بے حجابی

چاندنی کے بحر و بر میں
کارتک کی خواب ناکی آنکھوں کے دو جہاں تک

کاتک کی چندرمائی سپنوں کے لا مکاں تک
اے لا مکاں مکانی

سن کے صدا کسی کی
جوں پیچھے مڑ کے دیکھا

واں دور کوہ دل کی نم نم سی لکڑیوں کا
برہن سا خوبصورت چوٹی پہ اک مکاں تھا

لیکن وہ جل رہا تھا
کاتک کی چاندنی میں!