مارکس کے علم و فطانت کا نہیں کوئی جواب
کون اس کے درک سے ہوتا نہیں ہے فیض یاب
اس کی دانائی کا حاصل ناخن عقدہ کشا
تابناکئ ضمیر و زیرکی کا آفتاب
چاہنے والوں کا اس کی ذکر ہی کیا کیجیے
اس کے دشمن بھی سرہانے رکھتے ہیں اس کی کتاب
مادی تاریخ عالم جس کی تالیف عظیم
تاس کیپٹال ہے یا زیست کا لب لباب
پڑھ کے جس کے ہو گئیں ہشیار اقوام غلام
اشتراکی فلسفہ کا کھل گیا ہر دل میں باب
کتنے دوزخ اس کے اک منشور سے جنت بنے
کتنے صحراؤں کو جس نے کر دیا شہر گلاب
مارکس نے سائنس و انساں کو کیا ہے ہمکنار
ذہن کو بخشا شعور زندگانی کا نصاب
اس کی بینش اس کی وجدانی نگاہ حق شناس
کر گئی جو چہرۂ افلاس زر کو بے نقاب
''غصب اجرت'' کو دیا ''سرمایہ'' کا جس نے لقب
بے حساب اس کی بصیرت اس کی منطق لا جواب
آفتاب تازہ کی اس نے بشارت دی ہمیں
اس کی ہر پشین گوئی ہے برافگندہ نقاب
کوئی قوت اس کی سد راہ بن سکتی نہیں
وقت کا فرمان جب آتا ہے بن کر انقلاب
اہل دانش کا رجز اور سینۂ دہقاں کی ڈھال
لشکر مزدور کے ہیں ہم صفیر و ہم رکاب
کاٹتی ہے سحر سلطانی کو جب موسیٰ کی ضرب
سطوت فرعون ہو جاتی ہے از خود غرق آب
آج کی فرعونیت بھی کچھ اسی انداز سے
رفتہ رفتہ ہوتی جائے گی شکار انقلاب
لڑ رہا ہے جنگ آخر کیسۂ سرمایہ دار
جوہری ہتھیار سے کرتا نہیں جو اجتناب
اپنے مستقبل سے طاغوتی تمدن کو ہے یاس
دیدنی ہے دشمن انسانیت کا اضطراب
حضرت اقبالؔ کا ابلیس کوچک خوف سے
لرزہ بر اندام یوں شیطاں سے کرتا ہے خطاب
پنڈت و ملا و راہب بے ضرر ٹھہرے مگر
ٹوٹنے والا ہے تجھ پر اک یہودی کا عتاب
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
نظم
کارل مارکس
وامق جونپوری