چشم بد دور کراچی میں ٹریفک کا نظام
اونٹ گاڑی کی گدھا گاڑی کی ٹک ٹک کا نظام
راہگیروں سے پولس والوں کی جھک جھک کا نظام
کتنا چوکس ہے یہ پسماندہ ممالک کا نظام
راہ روکے ہے پولس ''کارگزاری'' دیکھو
کس طرح جاتی ہے شاہوں کی سواری دیکھو
دیکھو وہ جاتی ہے رشوت سے خریدی ہوئی کار
صحن گلشن میں ہو جیسے گزراں موج بہار
پاک دامن پہ نہیں اس کے ذرا گرد و غبار
چور بازار میں پھرتی ہے بصد عز و وقار
کیا ہو اس کار کے نیچے جو کوئی آ جائے
بے وسیلہ ہو تو لمبی سی سزا پا جائے
نہ خدا کا ہے اسے ڈر نہ ہے انسان کا ڈر
نہ اسے رکھشا چلاتے ہوئے حیوان کا ڈر
نہ پولس کا ہے اسے خوف نہ چالان کا ڈر
ہے اگر ڈر تو اسی مرد مسلمان کا ڈر
اونٹ گاڑی پہ سجائے جو جلوس آتا ہے
جس طرح متحد اقوام میں روس آتا ہے
اونٹ گاڑی جو سڑک پر نظر آ جاتی ہے
''کیڈلک'' کار اسے دیکھ کے شرماتی ہے
''بیوک'' میں ہوک سی اٹھتی ہے تو بل کھاتی ہے
''مرکری'' ٹھہرتی ہے ''ڈاج'' بھی کتراتی ہے
مجھ کو تجھ سے جو ہے الفت وہ ہے ون وے ساقی
ہم بھی ہیں تیرے ہی اللہ کے بندے ساقی
بس چلی جا رہی ہے عمر گریزاں کی طرح
ٹھس کے بیٹھے ہیں مسافر صف مژگاں کی طرح
مبتلا پیچ میں ہیں زلف پریشاں کی طرح
در پہ لٹکے ہیں بشر خار مغیلاں کی طرح
ریس کرتی ہیں بسیں شہر کے بازاروں میں
ہیں یہ سب قابض ارواح کے اوزاروں میں
رکشا جاتی ہے دکھاتی ہوئی جوش اور خروش
اور وہ نغمہ جسے سن کے ہو جھینگر خاموش
کیسی بل کھاتی ہوئی جاتی ہے طوفان بہ دوش
بیٹھ کر جس میں سواری کے بھی اڑ جائیں گے ہوش
جب گڑھا آتا ہے رستے میں اچھل جاتی ہے
اپنی چندیا کو سواری جو ہے سہلاتی ہے
ایک ہفتہ بھی ٹریفک کا منائے گی پولس
جادہ پیمائی کے آداب سکھائے گی پولس
اک گدھا شہر میں سے چن کے جو لائے گی پولس
اس کو ہر طرح سے انسان بنائے گی پولس
ہفتہ بھر بعد وہ ہو جائے گا پہلا سا گدھا
لاکھ سر مارا مگر کچھ نہیں سیکھا نہ پڑا
کتنا اچھا ہے کراچی میں ٹریفک کا نظام
نہ تو پبلک نہ پولس والوں کے منہ میں ہے لگام
روز چوراہوں پہ کرتی ہے پولس مشق کلام
جادہ پیماؤں کا جاری ہے وہی طرز خرام
جا بجا بورڈ پہ لکھا ہے کہ خاموش رہو
''فکر فردا نہ کرو محو غم دوش رہو''
نظم
کراچی کا ٹریفک
سید محمد جعفری