اتنی مدت دل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے
اپنے ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیں
یاد یاروں نے تو کب حرف محبت رکھا
غیر بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیں
تو سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالم
دور دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہوا
تو نے جانا تھا کہ آشفتہ سری کا موسم
دشت غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ہوا
اب جو تو شہر نگاراں میں قدم رکھے گا
ہر طرف کھلتے چلے جائیں گے چہروں کے گلاب
دوست احباب ترے نام کے ٹکرائیں گے جام
غیر اغیار چکائیں گے رقابت کے حساب
جب بھی گائے گی کوئی غیرت ناہید غزل
سب کو آئے گا نظر شعلۂ آواز میں تو
جب بھی ساقی نے صراحی کو دیا اذن خرام
بزم کی بزم پکارے گی کہ آغاز میں تو
مائیں رکھیں گی ترے نام پہ اولاد کا نام
باپ بیٹوں کے لئے تیری بیاضیں لیں گے
جن پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے گی خلقت
اور ٹوٹے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گے
لوگ الفت کے کھلونے لیے بچوں کی طرح
کل کے روٹھے ہوئے یاروں کو منا لائیں گے
لفظ کو بیچنے والے نئے بازاروں میں
غیرت حرف کو لاتے ہوئے شرمائیں گے
لیکن ایسا نہیں ایسا نہیں اے دل اے دل
یہ ترا دیس یہ تیرے در و دیوار نہیں
اتنے یوسف تو نہ تھے مصر کے بازار میں بھی
جنس اس درجہ ہے وافر کہ خریدار نہیں
سر کسی کا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے یہاں
جسم ہی جسم ہیں دستاریں ہی دستاریں ہیں
تو کسی قریہ زنداں میں ہے شاید کہ جہاں
طوق ہی طوق ہیں دیواریں ہی دیواریں ہیں
اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی
اور نہ آواز کہ ''او چاک گریباں والے''
نہ کسی ہاتھ میں پتھر نہ کسی ہاتھ میں پھول
کر گئے کوچ کہاں کوچۂ جاناں والے
نظم
کر گئے کوچ کہاں
احمد فراز