EN हिंदी
کنیز | شیح شیری
kaniz

نظم

کنیز

احمد فراز

;

حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر
حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر

حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں
حضور بولئے کہ وسوسے وبال ہوش ہیں

حضور ہونٹ اس طرح سے کپکپا رہے ہیں کیوں
حضور آپ ہر قدم پہ لڑ کھڑا رہے ہیں کیوں

حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے
حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے

حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر
حضور کو نہ جانے کیا گماں ہے میری ذات پر

حضور منہ سے بہ رہی ہے پیک صاف کیجئے
حضور آپ تو نشے میں ہیں معاف کیجئے

حضور کیا کہا میں آپ کو بہت عزیز ہوں
حضور کا کرم ہے ورنہ میں بھی کوئی چیز ہوں

حضور چھوڑیئے ہمیں ہزار اور روگ ہیں
حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں