EN हिंदी
کندھے جھک جاتے ہیں | شیح شیری
kandhe jhuk jate hain

نظم

کندھے جھک جاتے ہیں

گلزار

;

کندھے جھک جاتے ہیں جب بوجھ سے اس لمبے سفر کے
ہانپ جاتا ہوں میں جب چڑھتے ہوئے تیز چڑھانیں

سانسیں رہ جاتی ہیں جب سینے میں اک گچھا سا ہو کر
اور لگتا ہے کہ دم ٹوٹ ہی جائے گا یہیں پر

ایک ننھی سی میری نظم سامنے آ کر
مجھ سے کہتی ہے مرا ہاتھ پکڑ کر، میرے شاعر

لا، میرے کندھوں پر رکھ دے، میں ترا بوجھ اٹھا لوں!