مر کے دیکھتا ہوں میں
زندگی کی رزم گاہ سرد اور بجھی ہوئی
جیسے ایک بیسوا رات کی تھکی ہوئی
ہو پلنگ پر اداس نیم جاں پڑی ہوئی
کوئی کشمکش نہیں کوئی جستجو نہیں
اب تو دور دور تک حشر ہاؤ ہو نہیں
چار سو نگاہ میں سوکھے سوکھے جسم میں
موت کی جبیں پہ ہیں یا کریہہ تیوریاں
چار سو نگاہ میں ہڈیوں کے ڈھیر ہیں
آج بھی جھلکتے ہیں جن سے بھوک کے نشاں
زندگی گراں رہی موت رائیگاں گئی
سیر ہو کے جا رہے ہیں گدھوں کے کارواں
میرے ہم سفر تمام سادگی شعار تھے
رنج کے شکار تھے غم سے دل فگار تھے
پھر بھی مطمئن جئے کتنے وضع دار تھے
وہ پڑی ہے ناظمہ، وہ مری رفیق کار
وہ مری شریک غم زیست کی شگفتگی
سچ کہ غم زدہ رہی افاقہ کش رہی مگر
بھیڑیوں کے واسطے تر نوالہ ہی رہی
اس کا جسم ڈھانپ دوں کہ ہر اک برہنگی
اس فریب زار میں ناپسند کی گئی
حالت ستم نصیب دیکھتا نہیں کوئی
کیوں ہوا کوئی غریب دیکھتا نہیں کوئی
اور حقائق مہیب دیکھتا نہیں کوئی
باغ دیکھتے ہیں سب راگ دیکھتے نہیں
چاند دیکھتے ہیں سب داغ دیکھتے نہیں
نظم
کم نگاہی
مخمور جالندھری