(عورت کے نام)
مرے احساس کی وادی میں کلیاں مسکراتی ہیں
مگر میں چن نہیں سکتی
میں لمحوں میں سفر کرتی ہوں
تابندہ افق کے اس کنارے تک
جہاں آکاش دھرتی کے لبوں کو چومتا ہے
سانس لیتا ہے
مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں
جانے کیسی زنجیریں پڑیں
روز اول سے
میں زنجیر آہن توڑ کر
روز ابد تک جا نہیں سکتی
میں کلیاں چن نہیں سکتی
مرے جذبوں کے نخلستاں میں سبزہ سر اٹھاتا ہے
ہوا دھیمے سروں میں گنگناتی ہے
فضائیں رقص کرتی ہیں
خدا آواز دیتا ہے
میں سر نیہوڑا کے سنتی ہوں
دیار روح میں اک ان سنا نغمہ مچلتا ہے
میں اس نغمے کو لب تک لا نہیں سکتی
مرے تپتے بدن پر
سبز شاخوں کی پھواریں سوکھ جاتی ہیں
مری آنکھوں کی جھیلوں میں
منور لاجوردی آسماں کا عکس ہوتا ہے
افق کے پار اک کھڑکی سی کھلتی ہے
سواد وقت کی ساری طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں
مگر یخ بستہ دیواریں
مجھے ہر سمت سے یوں گھیر لیتی ہیں
میں پرواز تمنا کر نہیں سکتی
مری آنکھوں کو نیلا آسماں حسرت سے تکتا ہے
کئی عمریں گزار آئی
کئی دنیائیں چھان آئی
کئی صحراؤں میں نقش قدم چھوڑے
کئی دریا لہو کے پار کر آئی
کئی آتش کدوں میں جذب دل کندن بنا آئی
مگر اب بھی مری زنجیر آہن کھڑکھڑاتی ہے
مجھے جب جب بھی نیلا آسماں حسرت سے تکتا ہے
میں اپنے آتش دل سے جلا دیتی ہوں
اس زنجیر کی کڑیاں
ستاروں تک پہنچتی ہوں
مدار نور میں مہتاب کی ہم رقص ہوتی ہوں
نظم
کلیاں نیلا آسمان زنجیر
ساجدہ زیدی