EN हिंदी
کل والوں کے لیے | شیح شیری
kal walon ke liye

نظم

کل والوں کے لیے

انور سین رائے

;

ہمیں ان سے ملنا ہے
جو کل کے ہیں

ہمارے پاس وہ کل ہیں
اور ان کے درمیان ہے

معدوم ایک آج
جس کا رقبہ ایک صفر پر محیط ہے

اس صفر میں ہے ایک دنیا
جو کل سے آئی ہے

اور کل کی طرف جا رہی ہے
ہم اس کل پر ایک قالین بچھاتے

جو جہنم میں چلنے کا مشورہ دیتی ہے
میں اس سے پوچھتا ہوں

کیا اس نے ویزا لگوا لیا ہے
میرا پاسپورٹ ری نیو ہونے گیا ہے

اگر میرے پاس
حکام کی جدید کنیزوں کے لیے

نا مناسب نہ سمجھے جانے والے تحفے ہوئے
تو میں پاسپورٹ کے بغیر بھی

اس کے ساتھ جانے کے لیے
کشتی میں سوار کر دیا گیا

اور کشتی پر پانی کا کیا ادھار ہے
یہ تو میں بھی نہیں جانتا