ایسے ہی بیٹھے ادھر بھیا تھے دائیں جانب
ان کے نزدیک بڑی آپا شبانہ کو لیے
اپنی سسرال کے کچھ قصے لطیفے باتیں
یوں سناتی تھیں ہنسے پڑتے تھے سب
سامنے اماں وہیں کھولے پٹاری اپنی
منہ بھرے پان سے سمدھن کی انہیں باتوں پر
جھنجھلاتی تھیں کبھی طنز سے کچھ کہتی تھیں
ہم کو گھیرے ہوئے بیٹھی تھیں نعیمہ شہناز
وقفہ وقفہ سے کبھی دونوں میں چشمک ہوتی
حسب معمول سنبھالے ہوئے خانہ داری
منجھلی آپا کبھی آتی کبھی جاتی تھیں
ہم سے دور ابا اسی کمرے کے اک کونے میں
کاغذات اپنے اراضی کے لیے بیٹھے تھے
یک بیک شور ہوا ملک نیا ملک بنا
اور اک آن میں محفل ہوئی درہم برہم
آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ زمیں لال ہے سب
تقویت ذہن نے دی ٹھہرو نہیں خون نہیں
پان کی پیک ہے یہ اماں نے تھوکی ہوگی
نظم
کل کی بات
اختر الایمان