EN हिंदी
کل ہی کی بات نہیں ہوتی | شیح شیری
kal hi ki baat nahin hoti

نظم

کل ہی کی بات نہیں ہوتی

روبینہ فیصل

;

دہلیز پر جو خواب ٹوٹا ہے
وہ کل کا تو نہیں تھا

وہ تو نہ جانے کتنے سالوں سے
نانیوں دادیوں نے الھڑ آنکھوں میں جگا رکھا تھا

یہ جو دیوار پر لگی تصویر اچانک دھڑام سے نیچے گر گئی ہے
یہ کل ہی تو نہیں ٹانگی گئی تھی

یہ تو اس آئینے میں سالوں سے نظر آ رہی تھی جو لڑکیاں تکیے کے نیچے
اس امید پر رکھ کر سوتی تھیں کہ

اس رات کے خواب میں ان کے دولہا کی شبیہ ابھرے گی
یہ جو تصویر گر کر ٹوٹ گئی ہے یہ صدیوں کی شبیہ کو بھی توڑ گئی ہے

یہ جو کل دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر ایک بادل کا رنگ کالا سیاہ پڑ گیا تھا
یہ بادل صرف کل ہی تو نہیں آسمان پر آیا تھا

یہ کالج کے آسمان پر نیلے رنگ میں نہ جانے کتنے سالوں سے رکا ہوا تھا
یہ جو کل محبت اور اعتماد کی تحریر دیکھتے ہی دیکھتے کاغذ سے غائب ہو گئی

وہ صرف کل ہی تو نہیں لکھی گئی تھی
نہ جانے کب سے محبت کی کہانیاں لکھنے والے اسے صفحات پر اتار رہے تھے

کل جو میرے دروازے کے سامنے کھڑی سڑک یکایک کہیں اور مڑ گئی
اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گئی یہ سانحہ صرف کل کا تو نہیں

اس سڑک نے تو سالوں سے راستہ بدلنے اور غائب ہونے کی ٹھان رکھی تھی
خواب تصویر تحریر بادل اور سڑک ان کے ٹوٹنے اور بدلنے کی بات

کل ہی کی بات نہیں ہوتی