کہو کون ہو تم
ازل سے کھڑے ہو
نگاہوں میں حیرت کے خیمے لگائے
افق کے گھنے پانیوں کی طرف
اپنا چہرہ اٹھائے
کہو کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں تم طلسم سماعت سے نا آشنا تو نہیں ہو
کہیں تم وہ در تو نہیں ہو
جو صدیوں کی دستک سے کھلتا نہیں
یا قدیمی شکستہ سی محراب ہو
جس میں کوئی چراغ رفاقت بھی جلتا نہیں
دھند آلود کہنہ پہاڑوں میں
اندر ہی اندر کو جاتا ہوا راستہ تو نہیں ہو
وہی رنگ ہو
جس سے رنگ اور آمیز ہوتا نہیں
بے نمو جھیل جس میں پرندہ کوئی
اپنے پر تک بھگوتا نہیں
کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں ملبۂ وقت پر
نیستی کے اندھیرے میں بیٹھے ہوئے
روز اول سے اجڑے ہوئے
بے سہارا مکیں تو نہیں ہو
کہیں تم فلک سے پرے
یا ورائے زمیں تو نہیں ہو!
کہو کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں تم تکلم کے اسرار سے
لفظ کے بھید سے نابلد تو نہیں ہو
کہیں تم ابد تو نہیں ہو!!
نظم
کہیں تم ابد تو نہیں ہو
رفیق سندیلوی