EN हिंदी
کہیں بارش ہو چکی ہے | شیح شیری
kahin barish ho chuki hai

نظم

کہیں بارش ہو چکی ہے

ذیشان ساحل

;

مکان اور لوگ
بہت خوش اور نئے نظر آ رہے ہیں

راستے اور درخت
خود کو دھلا ہوا محسوس کر رہے ہیں

پھول اور پرندے
تیز دھوپ میں پھیلے ہوئے ہیں

خواب اور آوازیں
شاید پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں

اداسی اور خوشی
اوس کی طرح بچھی ہے

ایسا لگتا ہے
میرے دل سے باہر

یا تمہاری آنکھوں کے پاس
کہیں بارش ہو چکی ہے