میرے گیتوں میں محبت نے جلائے ہیں چراغ
اور یہاں ظلمت زردار کے گھیرے ہیں تمام
سب کے ہونٹوں پہ ہوس ناک امیدوں کی برات
کوئی لیتا نہیں الفت بھرے گیتوں کا سلام
اے مرے گیت! کہیں اور ہی چلنا ہوگا
تجھ کو معلوم نہیں آدم و حوا کی زمیں
اپنے ناسور کو پردے میں چھپانے کے لیے
گل کئے دیتی ہے افکار کے معصوم چراغ
ہر نفس اپنے گریبان پہ رکھتی ہے نظر
جس میں اک تار بھی باقی نہیں پردے کے لیے
اے مرے گیت! کہیں اور ہی چلنا ہوگا
آ کہیں اور کسی دیش کو ڈھونڈیں چل کر
ہو جہاں بھوک نہ افکار کے پردوں پہ محیط
وقت ڈالے نہ جہاں قید میں فکروں کا جمال
پیار کے بول کو اپنائے جہاں ساری زمیں
آ اسی دیش میں پھیلاؤں ترے پیار کا نور
اے مرے گیت! کہیں اور ہی چلنا ہوگا
یہ بھی ممکن ہے کہ جھولی میں عمل کی اک روز
یاس کی خاک ہو اور دور ہو اپنی منزل
آرزوؤں کا کوئی دیش نہ مل پائے اگر
میرے سینے میں اتر جا کہ یہاں کوئی نہیں
جو ترے نور کو پیغام کو سمجھے آ کر
اے مرے گیت کہیں اور ہی چلنا ہوگا
نظم
کہیں اور ہی چلنا ہوگا
انور ندیم