EN हिंदी
کہیں سے کوئی نقطہ آ جائے | شیح شیری
kahen se koi nuqta aa jae

نظم

کہیں سے کوئی نقطہ آ جائے

عذرا عباس

;

جو کسی بھی لفظ پر
نہ لگایا جا سکے

اور وہ نقطہ
علیحدہ

الگ تھلگ
کھڑا رہے

کسی بھی گمان کے سہارے
اس انتظار میں

کہ کوئی ایسا لفظ آ جائے
جس پر اسے لگایا جا سکے

یہ بھی ہو سکتا ہے
وہ نقطہ

صدیوں اس لفظ کا
انتظار کرتا رہے

یہ بھی ہو سکتا ہے
صدہا سال گزر جانے کے بعد

یہ سارے لفظ بوسیدہ ہو جائیں
اور گل سڑ کر

تحلیل ہو جائیں
اور کچھ باقی نہ رہے

صرف وہ نقطہ رہ جائے