EN हिंदी
کہانی | شیح شیری
kahani

نظم

کہانی

ذیشان ساحل

;

میں نے ایک کہانی سوچی ہے
میں اسے کبھی نہیں لکھوں گا

لکھی ہوئی کہانیاں پڑھ کر
لوگ بہت سی باتیں فرض کر لیتے ہیں

اور فرضی کہانیاں لکھنی شروع کر دیتے ہیں
میں نے یہ کہانی اس سے پہلے کسی سے نہیں سنی

کہیں پڑھی نہیں اور فرض بھی نہیں کی
اس کے کردار کہانی شروع ہونے سے پہلے

یا شاید بعد میں مر چکے ہیں
وہ ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملے

یا شاید ہمیشہ ساتھ رہے ہیں
میں ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا

غیر فرضی کہانیوں کے بارے میں
کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا

ان میں سب کچھ خدا کی طرح غیر یقینی
موت کی طرح اچانک

اور کبھی کبھی محبت کی طرح خوبصورت اور غیر متوقع ہوتا ہے
اس کہانی کی کہانی یوں شروع

مگر ایسی کہانیاں کسی کو سنائی نہیں جاتیں
ورنہ لوگ خود کو ان کا کردار سمجھنے لگتے ہیں

یا شاید ایسا ہوتا بھی ہے
یہ کہانی میرے پاس دشمن کی کمزوریوں کے راز

اور تاش کے کھیل میں ترپ کے پتوں کی طرح ہے
میں اسے کبھی نہیں لکھوں گا

اسے کسی کو نہیں سناؤں گا
اس کے کرداروں اور خود کو بھی نہیں

اپنے دوستوں اور اس لڑکی کو بھی نہیں
جس کے لیے میں نے ایک کہانی سوچی ہے