EN हिंदी
کہانی | شیح شیری
kahani

نظم

کہانی

نسیم انصاری

;

اک دن اس نے میرے دل کے دروازے پر دستک دی تھی
اور مرے خوابوں کی دنیا میں ارمانوں کا جشن ہوا تھا

کلیاں مہکیں پھول کھلے تھے
ہر سو خوشبو پھیل گئی تھی

اس کو دیکھا دیکھ کے سوچا
اس جیسا اس دنیا میں شاید کوئی اور نہ ہوگا

ایسا پیکر ایسا چہرہ کب دیکھا تھا میں نے
مرمر کی اک مورت کو چلتے پھرتے دیکھ لیا تھا

کتنے سمندر پوشیدہ تھے آنکھوں کی گہرائی میں
کتنی بہاریں کھیل رہی تھیں اس کے حسیں رخساروں پر

اک دن میں نے
اس کے دل کے دروازے پر دستک دی تھی

پیار ہوا تھا
کلیاں چٹکیں پھول کھلے تھے

ہر سو خوشبو پھیل گئی تھی
اک دن اس کے دروازے پر شہنائی بجی تھی

انجان نگر کا اک شہزادہ زرتار قبا میں آیا تھا
اس کو لے کر دور گیا انجان نگر کا شہزادہ

اک دن میں نے اس کو دیکھا
ویرانی کے منظر تھے اب خشک سمندر آنکھوں میں

اور خزاں کا رقص تھا اس کے سوکھے ہوئے رخساروں پر
لوگوں سے احوال سنا

انجان نگر کا شہزادہ
اس کو تنہا چھوڑ گیا تھا!