گل زمینہ!
سنو
تودۂ خاک پر
اپنی کونپل سی انگلی سے
کیا لکھ رہی ہو؟
گل زمینہ نے شربت بھری آنکھیں اوپر اٹھائیں اور کہنے لگی۔۔۔
کچھ ہی دن قبل
یہ تودۂ خاک ہی میرا اسکول تھا
میں نے اللہ کا نام
یا حافظُ
اس کی دیوار پر لکھ دیا تھا
میرے کاغذ، قلم، اور کتابیں
میرے کنبے کے ہمراہ سب مٹ چکے ہیں
میں یہاں روز آتی ہوں
اپنی یادوں کے بستے سے
پچھلے سبق ڈھونڈھتی ہوں
صفحۂ خاک پر ان کو لکھتی ہوں
اور لوٹ جاتی ہوں
میری قسمت میں پڑھنا نہیں ہے
نہ ہو!
میرا آموختہ
میرا لکھنا تو جاری رہے
نظم
کہانی گل زمینہ کی
زہرا نگاہ