سن رہا ہوں دیر سے دھیمی سی دستک کی صدا
کون ہوگا اس اندھیری رات میں
ہوگا کوئی
اجنبی راہی کی دستک تو نہیں
جو کسی پر ہول سائے کے لپکتے قہقہے کی گونج سے
بچ کے آ نکلا ہے میرے خانۂ تاریک تک
واقعی وحشت زدہ ہوگا اگر راہی کوئی
اس قدر محتاط سی آواز کیوں
اس قدر دھیمی سی چاپ
نیم کی شاخوں کے پیچھے اف یہ کوندے کی لپک
اور اڑتے ابر پاروں کی گرج
تیز رو آندھی کے قدموں کی یہ بھاری آہٹیں
تیز بارش کے ہیں آثار مہیب
بھیگ جائے گا کوئی
بند دروازے کو اب تو کھول دینا چاہئے
جانے پھر یہ کون اپنی سخت بانہوں میں
جکڑتا ہے مجھے
جانے کیوں رک رک گئے میرے عزائم کے قدم
کون ہے اس حجلۂ تاریک میں میرے سوا
جانتا ہوں مشرقی رخ پر تپائی کے قریب
شام کو جلتا رہا آہستہ بوسیدہ چراغ
اب وہاں تک جا سکوں گا کس طرح
سائبانوں سے پگھلتی بے کراں ظلمت کی رو
بڑھ گئی ہے توڑ کر سارے حدود
چیخ کر کس کو پکاروں کس کو میں آواز دوں
نیم کی لرزیدہ شاخوں میں گرجتا ہے افق
شور بڑھتا جا رہا ہے کیا کروں
اور وہ دستک کی دھیمی سی صدا
غالباً تا حشر ابھرے گی نہیں
کیا بھیانک رات ہے
نظم
کہانی ایک رات کی
دانش فرازی