EN हिंदी
کہانی | شیح شیری
kahani

نظم

کہانی

عزیز تمنائی

;

بڑی لمبی کہانی ہے سنو گے؟
سحر کی آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی

مرے ترکش نے لاکھوں تیر برسائے شعاعوں کے
کسی نے آفتابانہ ہر اک ذرے کو چمکایا

کسی نے ماہتابی چادریں ہر سمت پھیلائیں
کوئی جگنو کی صورت جھلملایا

انہیں بکھرے ہوئے تیروں کے زیر سایہ
میں چلتا رہا

ہر موڑ پہ کوئی نہ کوئی واقعہ
کوئی نہ کوئی حادثہ

میرے اجالے کو لپٹ کر چاٹ کر
دیمک زدہ کرتا رہا لیکن

سفر کی دھن سلامت
جنبش پا آگے بڑھتی ہی رہی

کوہ گراں پستے رہے
ساگر کی لہریں دم بخود ہوتی رہیں

میں بڑھتے بڑھتے سرحد امروز تک آ پہونچا
یہ مانا دور ہے منزل

یہ مانا آبلہ پا ہوں
غبار گردش ایام میں لپٹا ہوا

لیکن ابھی پھیلا ہوا ہے سلسلہ میرے اجالوں کا
ابھی ترکش میں لاکھوں تیر باقی ہیں

ابھی میری کہانی ختم کو پہنچی نہیں ہے
یہ بڑی لمبی کہانی ہے