نقاہت کے مارے برا حال تھا
پھر بھی بستر سے اٹھ کر
بڑے پیار سے اس نے مجھ کو بلایا
مرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرا
نہایت حلیمی سے مجھ کو کہا
سنو میرے بچے
تمہیں آج میں
اپنے پچپن برس دے رہا ہوں
اگر ہو سکے تو
کبھی ان کی قیمت چکانا
مری قبر پر تھوک جانا
بس اتنا کہا اور وہ مر گیا
اور میں
اس کے برسوں کی قیمت کو
منہ میں چھپائے
اسے ڈھونڈتا ہوں
کہاں دفن ہے وہ
نظم
کہاں دفن ہے وہ
محمد علوی