EN हिंदी
کہاں دفن ہے وہ | شیح شیری
kahan dafn hai wo

نظم

کہاں دفن ہے وہ

محمد علوی

;

نقاہت کے مارے برا حال تھا
پھر بھی بستر سے اٹھ کر

بڑے پیار سے اس نے مجھ کو بلایا
مرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرا

نہایت حلیمی سے مجھ کو کہا
سنو میرے بچے

تمہیں آج میں
اپنے پچپن برس دے رہا ہوں

اگر ہو سکے تو
کبھی ان کی قیمت چکانا

مری قبر پر تھوک جانا
بس اتنا کہا اور وہ مر گیا

اور میں
اس کے برسوں کی قیمت کو

منہ میں چھپائے
اسے ڈھونڈتا ہوں

کہاں دفن ہے وہ