چند سال اس طرف
ہم شناسا نگاہوں سے بچتے بچاتے
یہیں پر ملے تھے
تمہیں یاد ہے
کائنات ایک ٹیبل کے چاروں طرف گھومتی تھی
ہمیں دیکھ کر کتنے بوڑھوں کی آنکھیں
کسی یاد رفتہ میں نم ہو رہی تھی
مگر میں نے آنکھوں میں
اپنے لیے اور تمہارے لیے
مچھلیوں کی طرح تیرتے آنسوؤں میں تمنائیں دیکھیں
مجھے یاد ہے
جب کسی اجنبی مہرباں نے ہمیں پھول بھیجے
تو تم کتنی نروس ہوئیں
جلد ہی خوف، خدشے ہوا ہو گئے
دوسری ٹیبلوں پر بھی گلدستے ہنسنے لگے
اب محبت کا مسکن کہیں اور ہے
یہ جگہ اب زباں بند دشمن کا منہ کھولنے کے لیے ہے
جہاں اپنی ٹیبل تھی اب اس جگہ ایک پھندا لگا ہے
کہاں آ گئی ہو محبت کا کتبہ اٹھائے ہوئے
آؤ آگے چلیں
نظم
کہاں آ گئی ہو
تابش کمال