ہم شوریدہ کڑوے تلخ کسیلے ذائقے
رات کی پر شہوت آنکھوں سے ٹپکے تازہ قطرے
شام کے کالے سیاہ ماتھے کی ننگی مخروطی خارش
دوپہروں کے جلتے گوشت کی تیز بساند
رات کی کالی ران سے بہتا اندھا لاوا
خلیج کی گہرائی سے باہر آتا
قدم قدم پر خوف تباہی دہشت پیدا کرتا
بکھر رہا ہے
راتوں کی سیال ملامت اپنی لمبی زلف بکھیرے
کڑوے موسم کے جشنوں میں ناچ رہی ہے
کڑوے تلخ کسیلے ذائقوں کے ان جشنوں میں
گردن تک میں پگھل گیا ہوں
ماتھے پر ان شوریدہ جشنوں کی مہریں ثبت ہوئی ہیں
کڑوے ذائقے جونکیں بن کر تالو سے اب چمٹ گئے ہیں
تیز اور تند تیزابی سورج
ہانپتے اور کراہتے سرد مکانوں کی متورم چیخیں
متورم سانسوں میں سرخ تشدد کی چیخیں
میرے کان میں سرخ تشدد کی چیخوں کی
چھاؤنیاں آباد ہوئی ہیں
ہم شوریدہ کڑوے تلخ کسیلے ذائقے
نوزائدہ شہروں کے منہ پہ
قطرہ قطرہ ٹپک رہے ہیں
نظم
کڑوے تلخ کسیلے ذائقے
تبسم کاشمیری