جو کچے رستوں سے پکی سڑکوں کا رخ کیا تھا
کھڑاؤں اپنی اتار دیتے
بدن کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے
تمہاری سیراب پنڈلیوں پر نشان جتنے ہیں کہہ رہے ہیں
کہ تم نے راتوں کو رات سمجھا
ہر ایک موسم میں اس کی نسبت سے پھل اگائے
بدن ضرورت غذا ہمیشہ تمہیں ملی ہے
نہ جانے افتاد کیا پڑی ہے
جو کچے رستوں سے پکی سڑکوں کا رخ کیا ہے
نظم
کچے رستوں سے
شہریار