کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کرتا ہے
جیسے لفظ کے سارے رشتے بے معنی ہیں
لگتی ہے کانوں کو اکثر
خاموشی آواز کے سناٹے سے بہتر
سادہ کاغذ
لکھے ہوئے کاغذ سے اچھا لگتا ہے
خوابیدہ لفظوں کو آخر
جاگتی آنکھوں کی تصویر دکھائیں کیسے
پلکوں پر آواز سجائیں کیسے
کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے تم میری نظمیں ہو
جن کو پڑھ کر کبھی کبھی میں یوں بھی سچا کرتا ہوں
لفظوں کے رشتے بے معنی ہوتے ہیں
لفظ کہاں جذبوں کے ثانی ہوتے ہیں
نظم
کبھی کبھی
سحر انصاری