کبھی کبھی جی کرتا ہے
دور فلک تک اڑتا جاؤں
چاند کی دودھیا بھیڑ کو ذبح کر آؤں
اپنے ناخن کی دھار سے
گھنے پہاڑوں کو چیر آؤں
اتنی زور سے چیخوں
ساری خوشبو دار ہوائیں
دور تلک لڑھکیں
اور مر جائیں
کبھی کبھی جی کرتا ہے
خاموش رہوں
اپنے باطن کی تنہائی میں آ کر
چپ کے دو آنسو رو لوں
نظم
کبھی کبھی
قاسم یعقوب