EN हिंदी
کبھی کبھی | شیح شیری
kabhi kabhi

نظم

کبھی کبھی

محسن آفتاب کیلاپوری

;

کبھی کبھی یہ دل کرتا ہے
یادیں پھر سے تازہ کر لوں

کچے زخموں کو پھر خرچوں
چیزیں پھینک شیشہ توڑوں

دیواروں سے سر ٹکراؤں
گھر کے اک کونے میں چھپ کر

زانو پر میں سر کو رکھ کر
آنکھوں سے آنسو ٹپکاؤں

آہ بھروں اور روتا جاؤں
روتے روتے تجھ کو پکاروں

کبھی کبھی یہ دل کرتا ہے
وہی پرانی بک پھر کھولوں

جس کے اندر تیرا اک خط رکھا ہوا ہے