ساجدہ کن یگوں کی مسافت سمیٹے ہوئے
اس بیاباں میں یوں ہی بھٹکتی رہو گی
ان بگولوں کے ہم راہ یوں رقص کرتی رہو گی
کتنے صحراؤں میں تم نے پھوڑے ہیں پاؤں کے چھالے
کتنی بیدار راتوں سے مانگا ہے تم نے خراج تمنا
ساجدہ کچھ کہو
ہجر کی کن زمانوں میں اشکوں کی مالا پروئی
کن حسابوں چکایا قرض جنوں
کون سے مرحلوں سے گزر کر بنا روح کا پیرہن
کس طرح جاں سے گزرے ہیں طوفان غم
کس طرح نند آندھی کی یلغار میں
تم نے اپنی ردا کو سنبھالا
کیسے یخ بستہ تنہائیوں میں
جشن روح و دل و جاں منایا
شعلۂ آرزو میں
کیسے حرف و نوا کو تپایا
جاگتی رات کی تیرگی کو
کس طرح مطلع نور یزداں بنایا
کتنے سجدوں سے اپنی جبیں کو سجایا
ساجدہ
درد کے راستوں پر
کب سے محو سفر ہو
تم نے ان رہ گزاروں کی بنجر زمیں میں
کتنے رفتار و گفتار کے گل کھلائے
اس عقبوت کدہ کی سیاہی میں
کتنے چراغ تمنا جلائے
ساجدہ
اس تگ و دو سے تم نے
کیا کبھی چہرۂ زندگی کو سنوارا
کیا کسی دل میں کوئی ستارہ اتارا
کیا زمانے کی رفتار بدلی
کیا کسی تپتے صحرا کے ذروں کو کندن بنایا
کتنے زخموں پہ انساں کے مرہم لگایا
ظلم کی داستاں کو کبھی حرف شیریں بنایا
ساجدہ
شام ہے زندگی کی
تھک کے سو جاؤں سب ہاؤ بھول جاؤ
کڑی دھوپ کے کوس در کوس
اگلے زمانوں کے نقش قدم ہیں
رنگ و وسم بدلنے لگا ہے
تم مسیحا نہیں
تھک کے سو جاؤ
رقص جنوں بھول جاؤ
نظم
کب سے محو سفر ہو
ساجدہ زیدی