EN हिंदी
کب کرو گے ہمارا استقبال | شیح شیری
kab karoge hamara istiqbaal

نظم

کب کرو گے ہمارا استقبال

سبودھ لال ساقی

;

وقت کا ایسا یہ جزیرہ ہے
جہاں دن اور رات کچھ بھی نہیں

ذہن و دل اب ہیں ایسے عالم میں
ہوش و بے ہوشی میں نہیں کچھ فرق

اجنبیت ہے ایک خلا ہے یہ
یہاں خود کا پتا نہیں ملتا

پھر بھی کچھ تو سنائی دیتا ہے
چند آوازیں اور ایک دستک

ہر صدا کا کچھ ایسا لہجہ ہے
جیسے دہشت ہو درد ہو موجود

جیسے عصمت کو کوئی خطرہ ہو
ہر صدا کر رہی ہے یہ منت

کھول دو کھول دو کواڑ اپنے
وقت گزرا دماغ جاگ گیا

دل نے بھی یہ صدائیں سن ہی لیں
ہم سمجھتے تھے تم تو شاعر ہو

نرم دل ہو گے مہرباں ہو گے
ہم کو اپنے یہاں شرن دوگے

میں نے جانا کہ میری ڈیوڑھی پر
زخمی حالت میں کچھ پڑے تھے خیال

کچھ ہرے زخم چند تازہ ملال
ان سنے جملے ان کہے الفاظ

استعارات زاویے جذبات
ان چھوئے کچھ محاورے الہام

سب کی آنکھوں میں تھا بس ایک سوال
کب کرو گے ہمارا استقبال