نیا دن روز مجھ کو کتنا پیچھے پھینک دیتا ہے
یہ آج اندازہ ہوتا ہے کہ میں آہستہ آہستہ
ہزاروں میل کی دوری پہ تم سے آ گیا اور اب
دنوں سالوں مہینوں کو اکٹھا کر کے گم گشتہ
دیار ہو میں بیٹھا ہوں نہ کچھ آگے نہ کچھ پیچھے
سوا کچھ وسوسوں کے کچھ خساروں کے کمر بستہ
کہیں چلنے کو آگے جس کا واضح کچھ تصور ہی نہیں کوئی
ہمارے سب مسائل جن کا ہم پر بوجھ ہے اتنا
ہماری کشت بے مایہ ہیں اس صحرا میں کیا بویا
بگولوں کے سوا کچھ گرم جھونکوں کے سوا ہم نے
چلو اک تیز دھارے میں کہیں پر ڈال دیں کشتی
لطافت ٹھنڈے پانی کی کریں محسوس کچھ تھوڑا بکھر جائیں
ہنسیں بے وجہ یوں ہی غل مچائیں بے سبب دوڑیں
اڑیں ان بادلوں کے پیچھے اور میلوں نکل جائیں
نظم
کاوش
اختر الایمان