تجربہ کار ذہن تو سب سمجھ جاتا ہے
ذہن میں سوچوں کو بند کر کے
تالا ڈال دوں
چالاک آنکھیں تو سب کچھ تاڑ لیتی ہیں
ان پر لا علمی کے شیشے چڑھا دوں
اپنے حساس دل کو
ذرا خاطر میں نہ لاؤں
ماضی کا تمام مشاہدہ اور تجربہ
جو درج ہے ذہن پر
اسے مٹا ڈالوں
میری عقل میرے لیے عذاب بن گئی ہے
کاش سمجھ دار نہ بنوں
سسکی اور قہقہہ
میں اپنے پاؤں تلے سے جنت نکال کر
بڑی خوشی سے تمہیں سونپنے کے لئے تیار ہوں
میں اپنے پاؤں میں بندھی گرہستی کی بیڑیوں کو
بس تھوڑا سا ڈھیلا کر رہی ہوں
زیادہ دور نہیں جاؤں گی
ایک قہقہہ لگا کر ایک سسکی بھر کر
یا ایک نظم لکھ کر لوٹ آؤں گی
میں آزاد عورت ہوں لیکن
اگر میرے بچوں کے بالوں میں لیکھیں پڑ جائیں
ان کی گردن پر پسینہ ملی مٹی نظر آئے
میرے کھانوں میں مصالحوں کی ترتیب گڑبڑ ہو جائے
بچوں کے ہوم ورک کی کاپی پر
ناٹ ڈن لکھا ہوا آ جائے
گھر آئے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے
ایک کپ چائے بھی نہ پلا سکوں
آفس سے لوٹتے ہوئے تھکے ہوئے شوہر سے
حال احوال بھی نہ پوچھوں
تو میری سانسیں گھٹی ہوئی
اور قہقہہ پھٹی پھٹی آنکھیں
اور نظم ادھورا خواب لگتی ہے
خدا نے نبوت عطا کرتے ہوئے امام بناتے ہوئے
پوری قلندری عطا کرتے ہوئے
مجھ پر اعتبار نہیں کیا تھا
پوری قوم کو اعلیٰ نسل دینے کی ذمہ داری
فقط میری ہے
اس عالی منصب پر کام کرتے کرتے
میں تھک بھی تو سکتی ہوں
میری اتفاقی رخصت منظور ہو چکی ہے
میں جا رہی ہوں ایک سسکی بھرنے ایک قہقہہ لگانے
اور ایک نظم لکھنے کے لیے
چھٹی اخلاقی طور پر منظور ہونے کے باوجود
گھر کی ہر چیز کو مجھ سے شکایت
کیوں ہے
بچوں کے چہرے پر غصہ دیکھ کر سوچتی ہوں
قہقہہ عیاشی اور سسکی یا آس ہے
اور نظم پاؤں میں چبھا ہوا کانچ کا ٹکڑا ہے
میری ماں کہتی ہے
تم مجھ سے اچھی ماں نہیں ہو
تم عجب ہو گھر شوہر اور بچوں کے علاوہ
اور بھی کچھ چاہتی ہو
میری بیٹی میرے ہاتھ سے قلم چھین کر
کہتی ہے فرنچ فرائی بنا کر دو
میں سوچتی ہوں
میری بیٹی کو بھی جب
ایک قہقہے نظم یا تصویر کے لئے
اپنی زندگی کی تجوری سے
کچھ پل درکار ہوں گے
تو میں اسے کیا مشورہ دوں گی
قہقہہ بچپن کی بچھڑی ہوئی سکھی
سسکی ہاتھوں سے اڑتا ہوا پنچھی
اور نظم گناہ ہے
نظم
کاش سمجھ دار نہ بنوں
عطیہ داؤد