یہ کون کہتا ہے انساں کا کاروان حیات
پلٹ کے آنے کو ہے بے گناہی کی جانب
وہی گناہ وہی معصیت وہی بدبو
وہی ہے درد وہی کروٹیں وہی پہلو
وہی فساد وہی شر ہی تمرد ہے
دماغ و دل پہ مسلط وہی تشدد ہے
یہ کون کہتا ہے انساں کا کاروان حیات
پلٹ کے آنے کو ہے بے گناہی کی جانب
میں دیکھتا ہوں کہ انساں کا کاروان حیات
اجالا چھوڑ چلا ہے سیاہی کی جانب
سیاہی جیسے سمندر کی تھاہ میں پنہاں
سیاہی جیسے خم دود آہ میں پنہاں
سیاہی جیسے گھٹا ٹوپ رات سے ظاہر
سیاہی جیسے منافق کی بات سے ظاہر
میں دیکھتا ہوں کہ انساں کا کاروان حیات
اجالا چھوڑ چلا ہے سیاہی کی جانب
میں جانتا ہوں کہ انساں کا کاروان حیات
رواں دواں تو ہے لیکن تباہی کی جانب
تباہی جس میں جہنم کا غار پوشیدہ
تباہی جس میں ہے ہر فرد زہر نوشیدہ
تباہی جس میں ہے ہر گھات گھات میں جموت
تباہی جس میں نہاں موت کا جمود و سکوت
میں جانتا ہوں کہ انساں کا کاروان حیات
رواں دواں تو ہے لیکن تباہی کی جانب
نظم
کاروان حیات
امجد نجمی