کانچ نازک ہیں خواب نازک ہیں
تم قدم سوچ کر ادھر رکھنا
کھیلنے کا تجھے ہے شوق مگر
ان چٹانوں پہ بھی نظر رکھنا
تیرے دل میں ہے آرزو کی کرن
تیری آنکھوں میں خواب ہیں کل کے
تیرے ہاتھوں میں رنگ تتلی ہیں
تیرے چہرے پہ عزم ہیں دہکے
میرے آنگن کی کانچ کی گڑیا
اپنی قسمت کا امتحان نہ لے
میں تجھے شاد دیکھنا چاہوں
تو اندھیروں کا آسمان نہ لے
دل پہ بیتی جو میں نے سہہ لی ہے
خار راہوں سے تیری چن لوں گی
تیری ہر اک خوشی عزیز مجھے
تجھ کو سنسار اک نیا دوں گی
میری گڑیا مگر یہ کہتی ہے
مجھ کو دنیا تو دیکھ لینے دو
کیا ہوا گر مجھے بھی زخم ملیں
غم ہستی کا وار سہنے دو
نظم
کانچ کی گڑیا
شائستہ مفتی