جب دن ڈھل جاتا ہے، سورج دھرتی کی اوٹ میں ہو جاتا ہے
اور بھڑوں کے چھتے جیسی بھن بھن
بازاروں کی گرمی، افرا تفری
موٹر، بس، برقی ریلوں کا ہنگامہ تھم جاتا ہے
چائے خانوں ناچ گھروں سے کمسن لڑکے
اپنے ہم سن معشوقوں کو
جن کی جنسی خواہش وقت سے پہلے جاگ اٹھی ہے
لے کر جا چکتے ہیں
بڑھتی پھیلتی اونچی ہمالہ جیسی تعمیروں پر خاموشی چھا جاتی ہے
تھیٹر تفریح گاہوں میں تالے پڑ جاتے ہیں
اور بظاہر دنیا سو جاتی ہے
میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچا کرتا ہوں
کتوں کی دم ٹیڑھی کیوں ہوتی ہے
یہ چتکبری دنیا جس کا کوئی بھی کردار نہیں ہے
کوئی فلسفہ کوئی پائندہ اقدار نہیں، معیار نہیں ہے
اس پر اہل دانش ودوان، فلسفی
موٹی موٹی ادق کتابیں کیوں لکھا کرتے ہیں؟
فرقتؔ کی ماں نے شوہر کے مرنے پر کتنا کہرام مچایا تھا
لیکن عدت کے دن پورے ہونے سے اک ہفتہ پہلے
نیلمؔ کے ماموں کے ساتھ بدایوں جا پہنچی تھی
بی بی کی صحنک، کونڈے، فاتحہ خوانی
جنگ صفین، جمل اور بدر کے قصوں
سیرت نبوی، ترک دنیا اور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے میں کیا رشتہ ہے؟
دن تو اڑ جاتے ہیں
یہ سب کالے پر والے بگلے ہیں
جو ہنستے کھیلتے لمحوں کو
اپنے پنکھوں میں موند کے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں
راحت جیسے خواب ہے ایسے انسانوں کا
جن کی امیدوں کے دامن میں پیوند لگے ہیں
جامہ ایک طرف سیتے ہیں دوسری جانب پھٹ جاتا ہے
یہ دنیا لمحہ لمحہ جیتی ہے
مریمؔ اب کپڑے سیتی ہے
آنکھوں کی بینائی ساتھ نہیں دیتی اب
اور غضنفرؔ
جو رومال میں لڈو باندھ کے اس کے گھر میں پھینکا کرتا تھا
اور اس کی آنکھوں کی توصیف میں غزلیں لکھوا کر لایا کرتا تھا
اس نے اور کہیں شادی کر لی ہے
اب اپنی لکڑی کی ٹال پہ بیٹھا
اپنی کج رائی اور جوانی کے قصے دہرایا کرتا ہے
ٹال سے اٹھ کر جب گھر میں آتا ہے
بیٹی پر قدغن رکھتا ہے
نئے زمانے کی اولاد اب ویسی نہیں رہ گئی
بدکاری بڑھتی جاتی ہے
جو دن بیت گئے کتنے اچھے تھے!
برگد کے نیچے بیٹھو یا سولی چڑھ جاؤ
بھینسے لڑنے سے باز نہیں آئیں گے
موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھا ہے
سڑکوں پر سے ہر لمحہ اک میت جاتی ہے
پس منظر میں کیا ہوتا ہے نظر کہاں جاتی ہے
سامنے جو کچھ ہے رنگوں آوازوں چہروں کا میلا ہے!
کرگل اڑ کر وہ پلکھن پر جا بیٹھی
پیپل میں طوطے نے بچے دے رکھے ہیں
گلدم جو پکڑی تھی کل بے چاری مر گئی
نجمہؔ کے بیلے میں کتنی کلیاں آئیں ہیں
پھولوں کی خوشبو سے کیا کیا یاد آتا ہے
یہ جب کا قصہ ہے سڑکوں پر نئی نئی بجلی آئی تھی
اور مجھے سینے میں دل ہونے کا احساس ہوا تھا
عید کے دن ہم نے لٹھے کی شلواریں سلوائی تھیں
اور سویوں کا زردہ ہمسائے میں بھجوایا تھا
سب نیچے بیٹھک میں بیٹھے تھے
میں اوپر کے کمرے میں بیٹھا
کھڑکی سے زینبؔ کے گھر میں پھولوں کے گچھے پھینک رہا تھا
کل زینبؔ کا گھر نیلام ہو رہا ہے
سرکاری تحویل میں تھا اک مدت سے!
شاید پت جھڑ کا موسم آ پہنچا
پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آتی ہے
چیچک کا ٹیکہ بیماری کو روکے رکھتا ہے
ضبط تولید اسقاط وغیرہ
انسانی آبادی کو بڑھنے سے روکیں گے
بندر نے جب سے دو ٹانگوں پر چلنا سیکھا
اس کے ذہن نے حرکت میں آنا سیکھا ہے
پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آتی ہے
سڑکوں پر روز نئے چہرے ملتے ہیں
موت سے ہم نے ایک تعاون کر رکھا ہے
پس منظر میں نظر کہاں جاتی ہے
پھولوں کی خوشبو سے کیا کیا یاد آتا ہے
چوک میں جس دن پھول پڑے سڑتے تھے
خونی دروازے پر شہزادوں کی پھانسی کا اعلان ہوا تھا
یہ دنیا لمحہ لمحہ جیتی ہے
دلی کی گلیاں ویسی ہی آباد شاد ہیں سب
دن تو کالے پر والے بگلے ہیں
جو سب لمحوں کو
اپنے پنکھوں میں موند کے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں
چاروں جانب رنگ رنگ کے جھنڈے اڑتے ہیں
سب کی جیبوں میں انسانوں کے دکھ درد کا درماں
خوشیوں کا نسخہ بندھا پڑا ہے
لیکن ایسا کیوں ہے
جب نسخہ کھلتا ہے
1857 جاتا ہے
1947 آ جاتا ہے
نظم
کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام
اختر الایمان