EN हिंदी
کالے موسموں کی آخری رات | شیح شیری
kale mausamon ki aaKHiri raat

نظم

کالے موسموں کی آخری رات

اعجاز راہی

;

تب ہزاروں اندھیروں سے
اک روشنی کی کرن پھوٹ کر

سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی
اور کمرے میں پھرتے ہوئے

سیکڑوں زرد ذرے
صداؤں کے آغوش پر

بلبلاتے سسکتے ہوئے
میری جانب بڑھے

میں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی
زرد ذروں سے گویا ہوا

دوستو
آؤ بڑھتے چلیں

روشنی کی طرف روشنی کی طرف
روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ہے

روشنی کی طرف روشنی کی طرف
روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ہے

روشنی جو ہماری تمناؤں کی آس ہے
زرد ذرے میرے ساتھ بڑھنے لگے

روشنی کی طرف روشنی کی طرف
چند ذرے کہ جن کی رگوں میں

سیہ رات کی ظلمتیں بس چکی تھیں
میری باتوں پہ ہنسنے لگے

اور ہنستے رہے
تب ہزاروں اندھیروں کے سینے میں

پھیلا ہوا اک طلسم
روشنی کی تب و تاب سے

ٹوٹنے کے لیے
اور آگے بڑھا