EN हिंदी
کالا سورج | شیح شیری
kala suraj

نظم

کالا سورج

اختر راہی

;

کتنے روشن آفتابوں کو نگل کر
کالا سورج

روشنی کے شہر میں داخل ہوا
ساری کالی قوتوں نے

کالے سورج کو اٹھایا دوش پر
خود سبھی راہوں کو روشن کر گئے

خود بخود سارے مکان و کارخانے جل اٹھے
خود بخود غل ہو گئے سارے چراغ

بے گناہوں کے لہو نے راستے روشن کیے
آدمی کا کیا قصور

رات بھر یہ کالا سورج
ہر اجالے کا لہو پیتا رہا

کوچہ کوچہ رقص فرماتا رہا
گیت جھوٹی فتح کے یہ صبح تک گاتا رہا

روشنی کے شہر میں
کالے سورج پر کئی آشفتہ سر وارے گئے

آدمی کا کچھ نہ بگڑا دیوتا مارے گئے