EN हिंदी
کالا پتھر | شیح شیری
kala patthar

نظم

کالا پتھر

شکیب جلالی

;

میرا چہرہ آئینہ ہے
آئینے پر داغ جو ہوتے

لہو کی برکھا سے میں دھوتا
اپنے اندر جھانک کے دیکھو

دل کے پتھر میں کالک کی کتنی پرتیں جمی ہوئی ہیں
جن سے ہر نتھرا ستھرا منظر کجلا سا گیا

دریا سوکھ گئے ہیں شرم کے مارے
کوئلے پر سے کالک کون اتارے!!