EN हिंदी
کائناتی گرد میں برسات کی ایک شام | شیح شیری
kaenati gard mein barsat ki ek sham

نظم

کائناتی گرد میں برسات کی ایک شام

زاہد امروز

;

ویسے تو پہاڑ زمین کا سکڑا ہوا لباس ہیں
لیکن جب بارش ہوتی ہے

ان کی سلوٹوں پر اجلاہٹ اگ آتی ہے
سانپ کی دم سی سڑک پر چلتے ہوئے

موسم مجھے اپنی کنڈلی میں قید کر لیتا ہے
لہر در لہر منقسم پہاڑوں کا حسن

رنگوں کی اس دھندلاہٹ میں پوشیدہ ہے
جسے ہماری بیمار آنکھیں کبھی منعکس نہیں کر پاتیں

بارش کے بعد
جب دھرتی اپنے میلے کپڑے اتارتی ہے

میں ہر شام، رازوں کے تعاقب میں
اس کے داؤدی بدن پر پھیل جاتا ہوں

اور دیواریں پھلانگتا، خدا کے شکستہ صحن میں
نقب لگاتا ہوں

میرے وجود میں ایک اندھا خلا پھیلنے لگتا ہے
میں دیکھتا ہوں

آسمان میں کوئی عقاب چھپا ہے
جو ہماری زندگیوں کے چوزے اچک رہا ہے

میں ان درختوں سے مخاطب ہوتا ہوں
جن کی جڑوں میں چیونٹیاں

اپنی موت پر سوگوار رہتی ہیں
بھیگی شاخوں پر سہمے کوے رات بھر کانپتے رہتے ہیں

کتنی بے رحم لگتی ہے زندگی!
جہاں موت برستی ہے

اور لاکھوں سانسیں بے وقعت آوارہ کتوں کی طرح
مر جاتی ہیں

وہاں پھر مسکراتا گھنا جنگل اگ آتا ہے
اس لامتناہی وسعت میں ہم صابن پر چمٹے بال سے

زیادہ کچھ نہیں رہتے
وقت جسے، ایڑی پر جمے میل کی طرح دھو ڈالتا ہے

میں اپنی ضعیف سائنسی قوت سے محسوس کرتا ہوں
سب سے عظیم دکھ یہی ہے

کہ کائنات ہماری دسترس میں نہیں
اس رنجوری سفر سے بے بس لوٹتے ہوئے

میں جوتوں سے مٹی جھاڑتا ہوں
اور کھڑکی سے جھانکتے اجلے منظر میں

بے فکری کی چائے پینے لگتا ہوں
دور پہاڑوں پر، مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے